Friday, March 23, 2012

13براہ کرم کسی بھی دقت کی صورت میں یہ مضمون Facebook۔یا۔Express کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں لفظ ’’پاکستان’’ کا خالق کون؟۔۔۔۔چند معروضات تحریر: سہیل احمد صدیقی (سابق جائنٹ سیکریٹری، پاکستان کوئز سوسائٹی) روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین مؤرخہ 27مارچ 2011ء میں مندرجہ بالا عنوان کے تحت عقیل عباس جعفری کی چونکادینے والی خصوصی رپورٹ نظر سے گزری۔ اس حیرت زا نگارش کے حوالے سے بعض اہم نکات پیش خدمت ہیں۔عقیل عباس جعفری خود۔یا۔اُن کی طرح ، تحقیق کا جویا ، کوئی شخص اِن کا مدلل جواب دے سکے تو خوشی ہوگی: *زیر نظر نگارش کے مطابق یہ لفظ سب سے پہلے علامہ مولانا سید غلام حسن شاہ کاظمی نے استعمال کیا (جن کا نام سرورق پر علامہ سید رضاحسن شاہ کاظمی اور صفحہ نمبر 7کی دائیں جانب ، آخری پیراگراف کی آخری سطور میں سید غلام حسین شاہ کاظمی بھی درج کیا گیا۔۔۔سہودر سہو۔یا۔انکشاف کو ضبط تحریر میں لانے کی جلدی؟)۔۔۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے متعلق انگریزی اور اردو میں متعدد مصنفین اور محققین (بشمول مشاہیرِ تحریک) نے دستیاب مواد کی روشنی میں اور بھرپور کدوکاوش کے بعد جو کتب تحریر کیں، نیز خان عبدالولی خان جیسے حضرات نے انڈیا آفس لائبریری ، لندن کے مخطوطات اور دستاویزات پر اَزسرِنو تحقیقی کام کیا تو اِن تمام کی نظر سے یہ تاریخی حقیقت کیوں اوجھل رہی؟۔۔۔(چودھری خلیق الزماں، شریف الدین پیرزادہ ، جی الانہ اور سید حسن ریاض سمیت کسی بزرگ نے چودھری رحمت علی کو ’خالقِ لفظِ پاکستان ‘ قراردینے میں تأمل نہیں کیا)۔ہندوستان میں ہم سے زیادہ تحقیقی کام ہوتا ہے ، وہاں بھی کسی نے اس بابت زحمت نہ کی۔راقم کے خیال میں یہاں اہلِ قلم کی فہرست پیش کرنا بے مصرف ہوگا۔ *عقیل عباس جعفری نے نمعلوم کیوں یہ تحریر کرنا گوارہ نہ کیا کہ چودھری رحمت علی نے زمان�ۂ طالب علمی میں ،اسلامیہ کالج ، لاہور میں بزمِ شبلی کی بنیاد رکھی تو افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہندوستان کا شمال مغربی علاقہ ، مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ ہم اسے ایک اسلامی ریاست بنائیں گے، لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم ہندوستان قومیت سے قطع تعلق کرلیں۔ اسی میں ہماری اور ہمارے دین ، اسلام کی بہتری ہے‘‘۔یہ 1915ء کی بات ہے۔ [Pakistan-Fatherland of the Pak Nation, by Ch. Rahmat Ali, Book Traders, LHR. 1978, P. 123] چودھری صاحب کی کی اس جرأتِ رندانہ کی توثیق حکیم آفتاب احمد قرشی نے اپنے والد حکیم محمد حسن قرشی کے حوالے سے کی تھی جو چودھری رحمت علی کے ہم جماعت تھے۔ انہوں نے ’’کاروانِ شوق‘‘ (ادار�ۂ تحقیقاتِ پاکستان ، جامعہ پنجاب، لاہور۔صفحہ نمبر 44)میں تحریر کیا:’’چودھری رحمت علی ، مولانا شبلی سے بے حد متأثر تھے ۔چودھری رحمت علی نے دیگر دوستوں کے ہمراہ لاہور میں ’بزم شبلی‘ قائم کی تھی ، جس کے اجلاس میں انہوں نے ، 1915ء میں تقسیمِ ہندوستان کا انقلاب آفریں نظریہ پیش کیا۔ یہ گویا مطالب�ۂ پاکستان کی ابتداء تھی‘‘۔ * بزمِ شبلی سے چودھری رحمت علی کے خطاب کی پہلی تائید سردار گل محمد خان ، صدر انجمن اسلامیہ ، ڈیرہ اسمٰعیل خان نے 1923ء میں کی : ’’ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں آباد ، ہم مسلمان،ہندوؤں سے علیٰحدگی چاہتے ہیں ۔ تئیس(23) کروڑ ہندوؤں کو جنوب کی طرف راجکماری سے آگرہ تک علاقہ دے دیا جائے اور آگرہ سے پشاور تک علاقہ چھَے(6)کروڑ مسلمانوں کے حوالے کیا جائے‘‘۔(حکومتِ ہند کی شمال مغربی سرحدی کمیٹی کے رُوبرو بیان۔منقولہ پاکستان : دی فادر لینڈ آف دی نیشن صفحہ نمبر 215از چودھری رحمت علی)۔چودھری رحمت علی نے اس تجویز کا یوں تجزیہ کیا: ’’اس سادہ سے مسلمان نے یہ مطالبہ پیش کرکے اُ ن تمام مسلمان رہنماؤں اور تنظیموں کے مؤقف کو یکسر مسترد کردیا جو ہندو مسلم یک جہتی کے عَلم بردار تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی منفرد قومی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا‘‘۔)پاکستان : دی فادر لینڈ آف دی نیشن صفحہ نمبر 215از چودھری رحمت علی(۔ *چودھری رحمت علی کو معاشی جدوجہد کے دور میں منشی محمد دین فوقؔ کے اخبار کشمیر گزٹ میں بطور نائب مدیر ملازمت ملی جو انہیں اپنے مضمون ’’مغرب کی اندھی تقلید‘‘[The blind immitation of the West]کے سبب (محکمہ اطلاعات ، پنجاب کی طرف سے دباؤ کے پیش نظر ) چھوڑنا پڑی۔[My Reminiscences of Ch. Rahmat Ali, by Prof. Jamil Wasti, P.7] * مسلم رہنماؤں میں سب سے پہلے 1905ء میں حسرت ؔ موہانی نے ہند کی مکمل آزادی کا نعرہ لگایا۔خطۂ ہند کی ہندو ؍مسلم بنیاد پر تقسیم کا نظریہ مختلف انگریز رہنما اٹھارویں صدی سے پیش کرتے آئے تھے۔مسلم عوام اورعلماء کی اکثریت کے راسخ عقیدے کے برعکس،سرسید احمد خاں ہندومسلم اتحاد کے پرچارک تھے ، مگر اردو ہندی تنازع کے سبب ، انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اَب اِ ن قوموں کا یک جا رہنا محال ہے۔(اس بِناء پر سہواً انہیں دوقومی نظریے کا بانی قرار دیا گیا ، حالاں کہ اس نظریے کے اصل محرک ، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان تھے ۔یہ بات متعدد تاریخی حوالوں، خصوصاً پروفیسر مسعود احمد مرحوم کی تحقیقی کتب اور اُ س دور کے علمی جریدے ’السواد اعظم‘ کی مدد سے بارہا ثابت کی جاچکی ہے)۔حسرتؔ موہانی کے اس نعرے کے ایک عشرے بعد ، عبدالستار خیری اور عبد الجبار خیری نے بھی ایک عالمی کانفرینس میں تقسیمِ ہند کی تجویز پیش کی تھی۔مگر اس ساری تفصیل سے قطعِ نظر ، چودھری رحمت علی سے قبل ، کسی سیاسی رہنما نے اس قسم کا کوئی بیان کبھی نہیں دیاتھا۔1924ء میں حسرتؔ موہانی نے اپنے مطالبے کی توسیع میں یہ تجویز پیش کی:’’ہندوستان کو مکمل آزادی دی جائے نیز ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیٰحدہ علیٰحدہ ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جائے جو ایک وفاقی حکومت کے تحت ہو‘‘۔(یعنی آزاد کنفیڈریشن: س ا ص)۔ * اس تجویز پر چودھری رحمت علی نے کیا خوب تبصرہ کیا تھا: ’’۔۔۔۔۔۔لیکن مولانا حسرتؔ موہانی اگر وفاقِ ہندوستان ۔یا۔ نیشنل سپریم گورنمنٹ کے تحت ، اسلام کی آزادی کے بارے میں پُر امید ہیں تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔۔۔کیوں کہ سولہ ہندو ریاستوں کے مقابلے میں چھَے (6)مسلمان ریاستوں کی کیا اہمیت اور حیثیت ہوگی‘‘۔(حوالہ مندرجہ بالا)۔ *آگے بڑھنے سے قبل ، عقیل عباس جعفری کے اہم ترین انکشاف ’’سید غلام حسن شاہ کاظمی نے یکم مئی 1936ء کو ہفت روزہ پاکستان ، ایبٹ آباد سے جاری کیا‘‘ پر کچھ معروضات: ا)۔ فاضل مضمون نگار (کوئز میں طویل تجربے کے باوجود) یہ بات یکسر فراموش کرگئے کہ چودھری رحمت علی نے بھی 1936ء میں ، انگلستان سے ہفت روزہ پاکستان جاری کیا تھا ۔ ب) ۔* تحقیق کے ضمن میں اس شخص کی طرف سے دعویٰ بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کی طرف کسی چیز ، علم ، فن۔یا۔ تحریرکی نسبت کی جائے(یعنی یہ کہ وہ اس کا موجد، مُخترع۔یا۔ خالق ہے) علامہ کاظمی صاحب کے بیان سے یہ کہیں واضح نہیں ہوتا کہ وہ لفظ ’پاکستان‘ کے خالق ہونے کے دعویدار بھی تھے۔۔۔۔۔۔جب دعویٰ ہی نہیں کیا گیا تو ثابت کرنے کی سعی، لاحاصل ٹھہری!۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کے برعکس، چودھری صاحب نے ابتداء سے دعویٰ بھی کیا اور طالب علمی کے زمانے میں ، تصورِ پاکستان پیش کرنے کے بعد ، مزاری اسٹیٹ ، روجھان ، ڈیرہ غازی خان سے بطور مشیر؍معتمد، اتالیق (برائے بلخ شیر مزاری، سابق نگراں وزیر اعظم پاکستان)اور مختارِ خاص وکیل ، وابستگی کے دور میں ( 1923ء تا 1929ء)آزاد مسلم ریاست کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی تھی۔( عقیل عباس جعفری کے قیاس کے برعکس ، راقم کے خیال میں ، یہ بات بعید اَز قیاس نہیں کہ چودھری رحمت علی نے مزاری اسٹیٹ سے وابستگی کے دور میں ، لفظ ’پاکستان‘ تخلیق کیا اور اسے قبولیتِ عامہ کی سند ملی ہو۔۔۔عین ممکن ہے کہ علامہ غلام حسن شاہ کاظمی نے جبھی یہ نام سُن کر ، اپنے رسالے کے لیے چُن لیا ہو۔میری تائید میں مزاری خاندان کے کوئی صاحبِ علم فرد قلم اٹھائیں تو بڑی نوازش ہوگی) *چودھری رحمت علی نے اکتوبر 1930ء میں انگلستان پہنچ کر ، ہندوستان کے مسائل کے حل کے لیے منعقد ہونے والی، گول میز کانفرینسوں میں مسلم اکابرسے ملاقات اور پاکستان کے حق میں تائید حاصل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد، تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز کیا اور 1933ء میں پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی۔ ج)۔ چودھری رحمت علی نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ کے حوالے سے مرتبہ منشورِ پاکستان کے نکات کو ہندوؤں کے لیے’’کاغذ سے بنی گولیاں‘‘[Paper bullets]قرار دیا تھا۔اس دور اندیش بیان کے جواب میں ہندو پریس نے بھرپور مخالفانہ مہم چلائی تو محدود پیمانے پر اِ س کی تائید بھی ہوئی۔ یکم اگست 1933ء کو برطانوی پارلیمان کی تشکیل کردہ جائنٹ سلیکٹ کمیٹی نے پاکستان اسکیم کے متعلق وضاحت طلب کرنے کے لیے پہلا اجلاس منعقد کیا جس میں مسلمانانِ ہند کی طرف سے عبداﷲ یوسف علی، سَر ظفر اﷲ خاں قادیانی ا ور ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے شرکت کی ۔ ان تمام حضرات نے پاکستان اسکیم کو ایک طالب علم کی تخیلی، ناقابلِ عمل تجویزقرار دیا تھا۔ دوسرے اجلاس (13نومبر1933ء) میں بھی کم و بیش یہی صورت حال رہی، مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان کسی علامہ کاظمی کا منصوبہ ہے۔ * مزید برآں 8مئی1935ء کو منعقد ہونے والے ، دارالعوام [House of Commons]کے اجلاس میں اس موضوع پر بحث ہوئی اور ایک ممتاز رکن پارلیمان Vyvyan Adams نے پاکستان اسکیم کو سرکاری پالیسی کے خلاف اور مسلمانوں سے وابستہ توقعات کے برعکس قرار دیا۔یہاں بھی کسی علامہ کاظمی کا ذکرِ خیر نہیں! د)۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ ، لاہور کے سابق مدیر مسٹر نیو ہیم نے 1933ء میں( چودھری رحمت علی کے ایماء پر ، اُن سے ملاقات کرنے والے)ڈاکٹر جہانگیر خان کی تحریک پر ،جنوب مغربی انگلستان کے کسی اخبار میں پاکستان اسکیم پر چوتھائی صفحے کا مضمون شائع کیا جس کے بعد تجویز کی حمایت و مخالفت میں قارئین کی مراسلہ نگاری کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔(ضمنی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جہانگیر خان ہی وہ کرکٹر تھے جن کی خطرناک تیز بولنگ کی زد میں آکر ایک چڑیا مرگئی تھی اور مزید دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن کے نامور فرزند ماجد خان (سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم)نے ایک تیز شاٹ ایسا کھیلا کہ ایک کبوتر مرگیا تھا!)۔۔۔یہاں بھی علامہ کاظمی کا ذکرِ خیر ندارد! ہ)۔ستمبر 1934ء میں Torquay Directory South Devon Journal کے مدیر نے چودھری رحمت علی سے لندن میں دو مرتبہ ملاقات کی اور ان کی اسکیم سے متأثر ہوکر اُن کے نظریات سے متعلق ایک مفصل مضمون شائع کیا: Indian White paper, Proposals of Muslim Opposition-Special Interview with Leader of New Pakistan Movement [12-9-19334] و)۔ * ڈیلی ٹیلی گراف نے ۹ستمبر 1935ء کو پاکستان اسکیم کی تائید میں ایک مضمون گمنام لکھاری (Annonymous contributor)کی طرف سے شائع کیا ۔ * ڈیلی آئرش انڈی پینڈنٹ[Daily Irish Independent]نے چودھری رحمت علی کے کسی ساتھی (فرضی نام An Irish Gentleman) کی طرف سے ایک تائیدی مضمون شائع کیا۔ *لندن کے ہفت روزہ جریدےThe East & the Great Britainمیں، ۱۹ نومبر1936ء کی اشاعت میں Ms. T. Frostکا تائیدی مضمون شامل تھا۔ غالباً یہ وہی محترمہ ہیں جو آگے چل کر چودھری صاحب کی پرسنل سیکریٹری بنیں۔ * 14جون 1937ء کو Morning Postنے ،Forester Alleceکا مراسلہ شائع کیا جس میں مطالب�ۂ پاکستان کی تائید کی گئی تھی۔ ز)۔ * ہندوستان کے جن اخبارات میں پاکستان اسکیم کے بارے میں مضامین اور مراسلے ، اُن دنوں شائع ہوتے رہے:انقلاب، اسٹار آف انڈیا ، سول اینڈ ملٹری گزٹ، سیاست، زمیندار * ماہنامہ طلوع اسلام بابت اکتوبر1939ء میں بانی تحریک پاکستان کے عنوان سے چودھری رحمت علی کا تعارف شائع کیا اور یہ انکشاف کرتے ہوئے کہ ’’تمام مسلم اخبارات نے پاکستان کے مطالبے کو اپنا شعار بنالیا ہے‘‘۔۔۔ایک نظم بعنوان ’پاکستان‘ بھی شائع کی گئی۔ نظم کا اختتام یوں ہوا: آرہے ہیں چوہدری رحمت علی لے کے پیغام انقلابی شان کا ’ہندِ مصنوعی‘ اٹھ استقبال کر بانیءِ تحریکِ پاکستان کا (نوٹ: درست لفظ بالتحقیق چودھری یعنی ’’چار مناصب پر فائز شخص‘‘ ہے) طباعت میں اس کے برعکس تمام مقامات پر چوہدری لکھا گیاہے * روزنامہ انقلاب ، لاہور مؤرخہ 29مئی 1938ء میں شامل ، جوشوا افضل دین کے مضمون میں کچھ استفسارات کیے گئے ، جن کا مدلل جواب چودھری رحمت علی نے مدیر کے نام مکتوب میں دیا تھا۔ * 12دسمبر1938ء کو چودھری موصوف نے نامور مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں کو، اُنہی کے استفسار پر ، تفصیلی خط لکھ کر ، پاکستان کے حوالے سے تمام شکوک کا ازالہ کیا۔بتائیے کہیں ذکر نظر آتا ہے علامہ غلام حسن کاظمی کا؟؟ ح)۔ نامور ترک ادیبہ خالدہ ادیب خانم نے 1935-36ء میں سیاسی حالات جاننے کی غرض سے ہندوستان کا دورہ کیا ، بعد اَزآں پیرس اور پھر لندن تشریف لے گئیں تو چودھری رحمت علی سے انٹرویو لیا (ایک جگہ ملاقات اور انٹرویو کا سن 1934ء بھی درج ہے)، جو 1937ء میں مطبوعہ ، اُن کی کتابInside Indiaمیں شامل تھا۔ انہوں نے واضح طور پر چودھری صاحب کے تعارف میں لکھا: ’’۔۔۔۔۔۔انہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی اور اس وقت اُن کی زندگی کا بڑا مقصد ، ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ محترمہ خالدہ ادیب خانم نے ہندوستان کے اس دورے میں سید غلام حسن شاہ کاظمی کا سرے سے ذکر کیوں نہ کیا؟؟ ط)۔ چودھری رحمت علی نے 1938ء میں پاکستان کا نقشہ اور پانچ ستاروں والا ، سبز ہلالی قومی پرچم تیار کیا نیز پاکستان کی آبادی ، ہمہ جہتی خصوصیات، معاشی مستقبل سمیت تمام موضوعات پر بالتحقیق مواد جمع کرکے عام کیا۔ اُن کے زرّیں خیال کے مطابق پاکستان کا وجود 712ء تا 1857ء، بجائے خود مسلّم تھا۔ یہ کردار کسی ایسے شخص کا نہیں ہوسکتا جس نے کسی دوسرے سے کوئی منفرد نام سُن کر اپنے کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنالیا ہو۔چودھری صاحب کے اپنے مشن سے گہرے تعلق کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے تمام عمر پاکستان کی تحریک کی خاطر وقف کی اور کبھی شادی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ی)۔چودھری رحمت علی نے انگلستان اور ہندوستان کے تمام اراکین پارلیمان ، بارسوخ سیاسی شخصیات سمیت ممتاز افراد کی ایک طویل فہرست نیز ہزاروں ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا پمفلٹ اتنے بڑے پیمانے پر ارسال کیا کہ ڈاک خانے والے اُن سے ’’رحم‘‘ کی درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے۔مسلم زعماء کا اُن کی مجوزہ پاکستان اسکیم پر فوری ردّ عمل کچھ اس طرح تھا: ۱۔ قائد اعظم محمد علی جناح: ’’تجویز ناقابلِ عمل ہے؛؛۔ (ملاقات دَر عشائیہ بمقام Wallroffہوٹل ، لندن۔ 1933ء) [Freedom at Midnight, P. 101] 2۔علامہ محمد اقبال: ’’گول میز کانفرینس میں تمام مسلم رہنماؤں نے اس پمفلٹ کی مذمت کی ہے اور ناراضی کا اظہار کیا ہے‘‘۔(روزنامہ نوائے وقت، مؤرخہ 28جون1964ء) (یادش بخیر کئی سال قبل، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں ببانگ دُہل یہ بات کہی تھی کہ جب قائد اعظم کے سامنے پاکستان اسکیم کا ذکر آیا تو انہوں نے اسے ’ بچکانہ‘ اور دیوانے کا خواب قرار دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ انٹرویو اخبارات میں بھی شائع ہواتھا۔موصوف بقید حیات ہیں،انہی سے تصدیق کرالی جائے۔) 3۔چودھری خلیق الزماں : ’’میں نے چودھری رحمت علی کو بتایا کہ میں اُن کے نظریے کا حامی ہوں لیکن ہندوستان کی تقسیم کے لیے لفظ ’پاکستان‘ استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں، کیوں کہ اس سے ایک طرف تو ہندو برہم ہوں گے، جب کہ دوسری طرف انگریز حکمرانوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگا‘‘۔[Pathway to Pakistan, LHR. 1961, P. 200] ک) ۔علامہ اقبال کی خطب�ۂ الہ آباد(1930)والی تجویز پر بہت سے اہلِ قلم نے طبع آزمائی کی۔ چودھری رحمت علی اُن کے مداح ہونے کے باوجود، اپنی اسکیم کا اُن کی تجویز سے فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’پاکستان کا مطالبہ ، علامہ اقبال کی تجویز سے بنیادی طور پر مختلف تھا۔ علامہ کی تجویز تھی کہ ہمارے پانچ مسلم اکثریتی شمالی صوبوں میں سے چار صوبوں کو ملا کر ایک اکائی بنایاجائے ، مگر ہم نے اِن پانچوں صوبوں کو وفاقِ ہند سے بالکل الگ اور خود مختار ملک بنانے کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان میں اس وقت تک نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے نہ ہی مسلمان اپنی قسمت کے مالک بن سکتے ہیں ، جب تک ہندو وفاق کے چکر میں غالب ہے‘‘۔ * ایک طرف چودھری رحمت علی نے مدلل تخاطب سے انگریز حکمرانوں کو للکارا اور اپنے منصوبے کی تائید چاہی تو دوسری طرف ، شاعری میں مسلم امت کو بیداری کا پیغام دینے والے علامہ اقبال نے ایک سے زائد بار ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: ’’میں آپ کو بتادوں کہ میں برطانوی ریاست’ برطانوی سلطنت سے ماوراء ، کسی مسلم ریاست کی تجویز پیش نہیں کرتا، بلکہ ، یہ تو برصغیر ہند کی قسمت بنانے میں مصروف ، مضبوط قوتوں کے تاریک مستقبل کی روشنی میں ، ممکنہ انجام کے بارے میں محض اندازہ ہے‘‘۔ [May I tell you that I do not just forward a demand of a Muslim state, outside the British State, outside the British Empire,but only, a guess at the possible outcome, in the dim future of the mighty forces, now shaping the destiny of the Indian Sub-continent''. (The Times of 12-10-1931, as quoted by Prof. Jamil Wasti, in 'My Reminiscences of Ch. Rahmat Ali, P. 55) ] * ڈاکٹر اسرار احمد نے کئی سال پہلے شائع ہونے والے (روزنامہ جنگ کے ایک قسط وار) مضمون میں علامہ موصوف کا ، اپنے انگریز استاد کے نام ایک خط(مع سند) نقل کیا تھا، جس میں انہوں نے پاکستان اسکیم سے اپنے تعلق کی تردید کرتے ہوئے اِسے محض بہتان قرار دیا تھا۔۔۔اس پر جذباتی نقطہۂ نظر کے حامل حضرات نے ڈاکٹر اسرار احمد کی مذمت کی تھی۔حق یہ ہے کہ تاریخ محض اندھی عقیدت، جذباتیت۔یا۔قرامطہ سے دلی لگاؤ اور نسلی ؍مذہبی تعلق رکھنے والے کسی جدید، نام نہاد مؤرخ ڈاکٹر فلاں کی مَن گھڑت تحریروں کی بنیاد پر مرتب نہیں کی جاسکتی! ل) اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ مفروضہ تسلیم کرلیا جائے کہ چودھری رحمت علی نے علامہ غلام حسن شاہ کاظمی سے لفظ پاکستان مستعار لیا تھا تو جناب چودھری موصوف کے وضع کردہ اِن دیگر ناموں (نیز تفصیلی دلائل) کے بارے میں کیا رائے ہے جو انہوں نے اپنی مجوزہ مسلم ریاستوں کے لیے پیش کیے: * بنگستان؍ بانگ اسلام (بنگال، آسام) * عثمانستان (حیدرآباد ، دکن) صدیقستان (مالوہ، بندھیل کھنڈ) * فاروقستان ( بِہار، اُڑیسہ)* حیدرستان ( متحدہ صوبہ جات) * ماپلستان ( مسلم مالابار) * معینستان (مسلم راجستھان) * ناصرستان (مسلم سیلون)* صافستان (سیلون کے نواحی مسلم علاقے) اس کے علاوہ * دینیہ موومنٹ(ہندوستان کا تشخص، غیر مذہبی کرنے کی تحریک) * اچھوتستان(اچھوت ہندور ریاست) اور پاک ایشیا (تمام مسلم و غیر مسلم خطہ جنوبی ایشیا) م)۔چودھری رحمت علی کو علامہ اقبال نے آخری عمر میں پیشکش کی کہ وہ اُن کی تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو چودھری موصوف نے یہ شرط عائد کی کہ پہلے سرکارِ برطانیہ کو ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس ایسا نہ ہوسکا! ن) ۔ چودھری رحمت علی کو قائد اعظم نے 1940ء میں، لاہور کے تاریخی جلسے میں شرکت کی دعوت دی مگر پنجاب کی ظالم حکومت نے اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔۔۔۔۔۔( کہا جاتا ہے کہ سندھ مسلم لیگ نے کراچی میں جو قرارداد پاکستان کے حق میں (29 تا 31 اکتوبر 1938ء) منظور کی تھی ، اس کی تحریک بھی سَر عبداﷲ ہارون اور اُن کے ساتھیوں عبد المجید سندھی اور جی ۔ایم۔سید نے چودھری رحمت علی سے متأثر ہو کر شروع کی تھی ،ورنہ مرکزی قیادت اس کے خلاف تھی) آیا یہ سب معمولی اور نظر انداز کرنے والی باتیں ہیں؟؟ س)۔تحریکِ آزادی کے واحد رہنما ، جس نے ہٹلر سے ملاقات کرکے پاکستان کے مطالبے کے لیے اخلاقی مدد حاصل کی، چودھری رحمت علی تھے۔پنجابی، اردو، انگریزی، فرینچ اور جرمن پر عبور کے حامل اِس عظیم رہنما نے مختلف ذرائع سے اپنی تحریک امریکا، یورپ، عرب دنیا اور افریقہ تک پہنچائی اور فرینچ میں بھی اِس موضوع پر کتاب لکھی جو غالباً اولین اور واحد تھی! ع)۔پاکستان کے قیام کے بعد چودھری رحمت علی کو یہاں آمد پر ، امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کے خلاف پالیسی اختیار کرنے اور ملک کے قیام کے بعد ہونے والی سیاسی بندر بانٹ سے قطع نظر ، اصولی ، محب وطن سیاست کرنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے دھمکیوں اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا ۔انہیں زہر دینے کی کوشش کی گئی اور بالآخر وہ پاکستان میں قیام مختصر کرکے، پاکستانی پاسپورٹ کے حصول میں ناکام ، دمے اور بے خوابی سمیت مختلف عوارض کا شکار ہونے کے بعد ، واپس انگلستان تشریف لے گئے۔ اُن کا انتقال کس مَپُرسی میں ہوا، تدفین عیسائی قبرستان میں ہوئی۔ 1967ء میں اُن کے بھائی نے اُن کی قبر پر کتبہ لگاکر مزار بنوایا۔۔۔جس کی مدح سرائی غیروں نے کی، جس کے افکار کا پرچار ایک عالَم میں ہوا،ہم اُ س عظیم محسن کی کردار کُشی میں مصروف ہیں؟؟؟ (عقیل عباس جعفری شعوری؍ لاشعوری طور پر اسی مہم کا حصہ بنے) ف)۔ آخر میں نہایت دل چسپ نکتہ بیان کرتا چلوں ۔عقیل عباس جعفری نے نامور صحافی خالد احمد کی انگریزی کتاب سے ایک مفروضہ نقل کرکے انٹرنیٹ کی مدد سے قراقلی ٹوپی کے وطن کا نام ’’قراقل پاکستان’’ لکھ دیا۔۔۔۔۔۔خالد صاحب کی لسانی نکتہ آرائی کا دیرینہ مداح ہونے کے باوجود، عرض کرتا ہوں کہ اُن سے فاحش ( فاش غلط ہے) غلطی سرزد ہوئی ۔۔۔عقیل عباس جعفری نے بھی کسی مستند ارد و ماخذ (بشمول اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔یا۔نصابی نوعیت کی کتاب ، تاریخِ ترکستان از پروفیسر علی محمد شاہین) سے تصدیق کی زحمت گوارہ نہ کی ورنہ وہ یہ جان لیتے کہ اصل میں لفظ ’’قرہ قلپاق‘‘ (کالی ٹوپی والے) قوم کا نام ہے اور اُ ن کا وطن قرہ قلپاقستان ہے۔۔۔ ۔۔۔ترکی زبان سے واقفیت نہ بھی ہو تو یہ بات بہ آسانی معلوم کی جاسکتی تھی۔اب آپ ہی بتائیں کیا اِ س نام سے لفظ پاکستان بن سکتا ہے؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مآخذ ۱۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ (مختلف جلدیں) ۲۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا (دو جلد) ۳۔ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا (طبع جدید) ۴۔ مسلم شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا ۔مطبوعہ ۱۹۸۷ء ۵۔ چودھری رحمت علی۔داع�ئ تحریک پاکستان از ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی ۶۔ چودھری رحمت علی اور تحریک پاکستان از عبد الحمید ۔لاہور : ۱۹۹۵ء ۷۔پیارا پاکستان (سلسلہ): خالق لفظِ پاکستان چودھری رحمت علی از قمر علی عباسی ۔کراچی۔دسمبر ۱۹۸۴ء ۸۔تاریخ ِ ترکستان از پروفیسر علی محمد شاہین۔کراچی۔ جنوری ۱۹۹۱ء ۹۔پروگرام ٹی وی انسائیکلو پیڈیا ، مسودہ برائے پروگرام نمبر۲۵۱۔ تحقیق و تحریر: سہیل احمد صدیقی۔ تاریخ نشر: ۱۲ اپریل ۱۹۹۴ء اخبارات * روزنامہ جنگ ، کراچی مؤرخہ ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء * روزنامہ فرنٹئیر پوسٹ(انگریزی)، لاہور ۔۔ایضاً۔۔۔۔ * روزنامہ ڈان (انگریزی)’ کراچی ۔۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔۔ * روزنامہ پاکستان ، لاہور مؤرخہ ۱۲ فروری ۱۹۹۱ء * روزنامہ ایکسپریس، کراچی مؤرخہ ۲۱ اگست ۲۰۰۵ء English books 1. Encyclopedia Americana 2. Rehmat Ali: A Biography by K.K.Aziz 3. My Reminiscences of Ch. Rehmat Ali, by Prof. Jamil Wasti 4. Pathway to Pakistan by Ch. Khaliquzzaman And various websites